The phrase “Allama Iqbal quotes” refers to the sayings, poetry, or philosophical ideas expressed by Allama Muhammad Iqbal, a renowned philosopher, poet, and thinker from South Asia. Iqbal’s works are celebrated for their profound wisdom, motivational spirit, and deep insights into spirituality, self-discovery (khudi), and the revival of the Islamic world.

میں مر جاوں تجھے میری خبر نہ ملے تو ڈھونڈتا رہے تجھے میری قبر نہ ملے

اپنا غم سنانے کو جب نہ ملا کوئی تو رکھ دیا آئینہ سامنے اور خود کو رولا دیا

جب سے تم چھوڑ گئے ہو بیگانے کی طرح مجھے غموں نے بانٹ لیا ہے خزانےکی طرح

اس طرح ہم اپنا غم چھپاتے ہیں دل روتا ہے اور ہم مسکراتے ہیں

غموں سے دل پتھر سا ہو گیا ہےاب غم نا ملے تو اچھا نہیں لگتا

کرتے ہیں یاد اپنوں کو خوشی میں ہم غم اکیلے سہنے کی عادت ہے

یہی لکھا تھا میرے ہاتھ کی لکیروں میں میں اگر پیار کرو گی تو بکھر جاوں گی

اس درد کا علاج نہ دعا ہے نہ دوا ہےفقط تیرا دیدار ہے

اتنا درد مرنے سے بھی نہ ہوگاجتنا درد تیری خاموشی نے دیا ہے

اداؤں کی بات کرتی ہودعاوں سے بهی نہیں ملیں گے اب ہم

درد جب روح میں ہو تودوائیں بے اثر ہو جاتی ہیں

میں نے پوچھا کہ میرا جرم بتا جو بھی ہوحکم آیا کہ سزا کاٹ خطا جو بھی ہو

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گاوہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائں یہو

بندگی کے عوض فردوس ملےیہ بات مجھے منظور نہیں

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو

اقبال تیری عظمت کی داستاں کیا سناؤں تیری زندگی پھ لکھوں تو الفاظ نہ پاؤں

اقبال کے شاھین کی پرواز جہاں تک کرگس کی کیا مجال کہ پہنچے گا وہاں تک

مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا؎

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے

اقبال کےبارے میں کیا کہیں ہم لوگ شاعری انکی ادب پر کر رہی ہے راج

میرے “اقبال“ میں شرمندہ ہوں تیری روح سے تیرے خوابوں کی جو تعبیر تھی پھر خواب کیا

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا

کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف

قافلہِ عشق و وفا کا سالار ہے اقبال کتابِ خودی کا انوکھا کردار ہے اقبال

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here