The phrase “Allama Iqbal quotes in Urdu” refers to the sayings, poetry, or philosophical ideas of Allama Muhammad Iqbal, expressed in the Urdu language.
Breaking Down the Phrase:
- Allama Iqbal (علامہ اقبال):
- Allama is an honorific title meaning “The Scholar” or “The Learned One,” given to Dr. Muhammad Iqbal (1877–1938). He was a renowned poet, philosopher, and thinker from the Indian subcontinent.
- Iqbal is considered the “Poet of the East” (شاعرِ مشرق) and “Mufakkir-e-Pakistan” (Thinker of Pakistan) for his intellectual contributions and role in inspiring the creation of Pakistan.
- His poetry often reflects themes of self-awareness, spirituality, freedom, and revival of the Muslim Ummah.
- Quotes:
- Refers to famous excerpts from his poetry, speeches, or writings. Iqbal’s works are deeply philosophical and motivational, often focusing on the concepts of:
- Khudi (Selfhood): The idea of self-realization and empowerment.
- Spiritual enlightenment.
- Islamic unity and cultural revival.
- Social justice and progress.
- Refers to famous excerpts from his poetry, speeches, or writings. Iqbal’s works are deeply philosophical and motivational, often focusing on the concepts of:
- In Urdu (اردو میں):
- Indicates that the quotes or writings are in Urdu, the language in which Iqbal wrote much of his poetry. His Urdu poetry is highly revered for its emotional depth and literary brilliance.
What It Signifies:
People search for “Allama Iqbal quotes in Urdu” to draw inspiration from his powerful and eloquent messages. These quotes are used to:
- Motivate individuals toward self-improvement and success.
- Reflect on spiritual and national identity.
- Celebrate Iqbal’s literary genius.
This quote encourages individuals to strive for excellence and take charge of their destiny through self-awareness and effort.
Allama Iqbal’s quotes remain highly influential and are widely shared in speeches, literature, and motivational contexts, particularly in Urdu-speaking communities.
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آ سمان کے لئے, جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں, کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
شاہین کبھی پرواز سے گِر کر نہیں مرتا, پر دم ہے اگرتو، تو نہیں خطرۂ افتاد۔
ذرا سی بات تھی ،اندیشہ عجم نے اسے, بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستان کے لئے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو, وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے
ڈھو نڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آ پ کو, آ پ ہی گویا مسافر آ پ ہی منزل ہوں میں
ایک بار آ جا اقبال ؔ پھر کسی مظلوم کی آواز بن کر, تیری تحریر کی ضرورت ہے کسی خاموش تقریر کو یہاں۔
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن, عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔
یورپ کی غلامی پے رضا مند ہوا تُو, مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
من کی دولت ہاتھ آ تی ہے تو پھر جاتی نہیں, تن کی دولت چھاؤں ہے ،آ تا ہے دھن جاتا ہے دھن۔
میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا, مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں, میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل, چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
ستم ہوکے ہو وعدہ بے حجابی, کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں, ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں۔
اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر, جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا کر
اگر سچ ہے تیرے عشق میں تو اے بنی آدم, نگاہِ عشق پیدا کر جمالِ ظرف پیدا کر
بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا, کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں
اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا, تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر
بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا, کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں
یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو, کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا, مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر, مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
کہاں سے تُو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی , کہ چرچاپادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے, ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
خواہشیں بادشاہوں کو غُلام بنا دیتی ہیں, مگر صبر غُلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے
آنکھ جوکُچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں, محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
عِلم میں بھی سرور ہے لیکن, یہ وہ جنت ہے جِس میں حور نہیں
غُلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں, جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مجھ کو باتوں میں لگائے رکھو۔۔۔ وہ مجھے یاد نا آنے پائے۔۔
اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ, ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر, نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں, نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں