The phrase “sad poetry in Urdu” refers to poetic expressions written in the Urdu language that revolve around themes of sadness, heartbreak, longing, pain, or melancholy. Urdu poetry, known for its rich tradition and emotional depth, often uses elegant metaphors, similes, and imagery to convey profound feelings.
Such poetry can appear in forms like ghazals, nazms, or shers, and it frequently explores topics such as:
- Lost love or unrequited feelings
- Separation and longing (known as hijr in classical poetry)
- Life’s struggles and disillusionments
- Existential pain or the transience of life
Famous Urdu poets like Mirza Ghalib, Faiz Ahmed Faiz, and Ahmed Faraz have written extensively on such themes. Sad Urdu poetry resonates with many because of its ability to articulate complex emotions in a deeply relatable and lyrical way.
Would you like an example of such poetry?
اسکی بےوفائی پے بھی فدا ہوتی ہے جان اپنی اگر اس میں وفا ہوتی توہ کیا ہوتا خدا جانے
تو نے ہی لگا دیا الزام-ے-بےوفائی عدالت بھی تیری تھی گواہ بھی تو ہی تھی
مل ہی جائےگا کوئی نہ کوئی ٹوٹ کے چاہنے والا اب شہر کا شہر توہ بےوفا ہو نہیں سکتا
بےوفائی کا موسم بھی اب یہاں آنے لگا ہے وہ پھر سے کسی اور کودیکھ کر مسکرانے لگا ہے
دل بھی گستاخ ہو چلا تھا بہت شکر ہے کی یار ہی بےوفا نکلا
بہت عجیب ہے یےمحبّت کرنے والے بےوفائی کرو توہ روتے ہےاور وفا کروتوہ رلاتے ہے
تیری بےوفائی پے لکھوںگا غزلیں سنا ہے ہنر کو ہنر کاٹتا ہے
مجھے معلوم ہےہم انکے بنا جی نہیں سکتے انکا بھی یہی حال ہےمگر کسی اور کے لئے
چلا تھا ذکر زمانے کی بےوفائی کا توہ آ گیا ہےتمہارا خیال ویسے ہی
صرف ایک ہی بات سیکھی ان حسن والوں سے ہم نے حسین جس کی جتنی ادا ہےوہ اتنا ہی بےوفا ہے
میری وفاؤں کو ٹھکرا دینے والے کاش تجھے بھی کسی بےوفا سے پیار ہو جائے
کسی بےوفا کی خاطر یے جنوں کب تک جو تمھیں بھول چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
کچھ الگ ہی کرنا ہے توہ وفا کرو بےوفائی توہ سبنے کی ہے مجبوری کے نام پر
رسوا کیوں کرتے ہو تم عشق کو ائے دنیا والوں محبوب تمہارا بےوفا ہے توہ عشق کا کیا گناہ
اب بھی تڑپ رہا ہے تو اسکی یاد میں اس بےوفا نے تیرے بعد کتنے بھلا دیے
وہ سنا رہے تھے اپنی وفاؤں کے قصے ہم پر نظر پڑی توہ خاموش ہو گئے
وفا نبھا کے کچھ دے نہ سکے پر بہت کچھ دے گئےجب وہ بےوفا ہوئے
رہنے دے یے کتاب تیرے کام کی نہیں اس میں لکھے ہوئے ہے وفاؤں کے تذکرے
اس دور میں کی تھی جس سے وفا کی امید آخر کو اسی کے ہاتھ کا پتھر لگا مجھے
جو کیا ہوتا ہم پیار کسی سچے انسان سے یوں تکلیف توہ نہ ہواس بےوفا سے دل لگا کے
محبّت سے بھری کوئی غزل انہیں پسند نہیں بےوفائی کے ہر شیر پے وہ داد دیا کرتے ہیں
باتوں میں تلخی لہجے میں بےوفائی لو یے محبّت بھی پہنچی انجام پر
اتنی مشکل بھی نہ تھی راہ میری محبّت کی کچھ زمانہ خلاف ہواکچھ وہ بےوفا ہوئے
اسکی بےوفائی پے بھی فدا ہوتی ہے جان اپنی اگر اس میں وفا ہوتی توہ کیا ہوتا خدا جانے